دلِ ناصبور صبر کہ کچھ خواب باقی ہیں
نئے خواب بھی سجائیں سکونت پہ جی نہیں
سکونت کی اختیار تو ہجرت پہ جی نہیں
دلِ ناصبور صبر کہ کچھ خواب باقی ہیں
مریض اب ہو تم مگر یہ کہ رخصت پہ جی نہیں
ہم ان کے مطیع ہوں وہ بھی تو قدردان ہوں
نہ خاطر کریں وہ ایسی عقیدت پہ جی نہیں
پرستش کے یہ تقاضے کہاں سے مباح ہیں
خدایا یہ کیا ہے تیری عبادت پہ جی نہیں
جو بیزاری ہے قبول نہیں ہے کسی بھی طور
کہ بیزار یُوں ہوئے ہیں محبت پہ جی نہیں
ہمیں عشق بھی تو راس نہیں آیا زیست میں
بریت قبول ہے پہ حراست پہ جی نہیں
تلاطم کا سوچ کیسا ہے اعجاز میں نہاں
دروں باغی ہے پہ اس کا بغاوت پہ جی نہیں
Rahman
14-Jul-2022 11:19 PM
Osm
Reply
Aniya Rahman
14-Jul-2022 10:30 PM
Nyc
Reply
Chudhary
14-Jul-2022 10:13 PM
Nice
Reply