Add To collaction

دلِ ناصبور صبر کہ کچھ خواب باقی ہیں

نئے خواب بھی سجائیں سکونت پہ جی نہیں
سکونت کی اختیار تو ہجرت پہ جی نہیں

دلِ ناصبور صبر کہ کچھ خواب باقی ہیں
مریض اب ہو تم مگر یہ کہ رخصت پہ جی نہیں

ہم ان کے مطیع ہوں وہ بھی تو قدردان ہوں
نہ خاطر کریں وہ ایسی عقیدت پہ جی نہیں

پرستش کے یہ تقاضے کہاں سے مباح ہیں
خدایا یہ کیا ہے تیری عبادت پہ جی نہیں

جو بیزاری ہے قبول نہیں ہے کسی بھی طور
کہ بیزار یُوں ہوئے ہیں محبت پہ جی نہیں

ہمیں عشق بھی تو راس نہیں آیا زیست میں
بریت قبول ہے پہ حراست پہ جی نہیں

تلاطم کا سوچ کیسا ہے اعجاز میں نہاں
دروں باغی ہے پہ اس کا بغاوت پہ جی نہیں

   11
5 Comments

Rahman

14-Jul-2022 11:19 PM

Osm

Reply

Aniya Rahman

14-Jul-2022 10:30 PM

Nyc

Reply

Chudhary

14-Jul-2022 10:13 PM

Nice

Reply